چاروں طرف سے موت نے گھیرا ہے زیست کو
اور اس کے ساتھ حکم کہ اب زندگی کرو
باہر گلی میں شور ہے برسات کا سنو
کنڈی لگا کے آج تو گھر میں پڑے رہو
چھوڑ آئے کس کی چھت پہ جواں سال چاند کو
خاموش کس لیے ہو ستارو جواب دو
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
جس نے بھی مڑ کے دیکھا وہ پتھر کا ہو گیا
نظریں جھکائے دوستو چپ چپ چلے چلو
اللہ رکھے تیری سحر جیسی کمسنی
دل کانپتا ہے جب بھی تو آتی ہے شام کو
ویراں چمن پہ روئی ہے شبنم تمام رات
ایسے میں کوئی ننھی کلی مسکرائے تو
عادلؔ ہوائیں کب سے بھی دیتی ہیں دستکیں
جلدی سے اٹھ کے کمرے کا دروازہ کھول دو
غزل
چاروں طرف سے موت نے گھیرا ہے زیست کو
عادل منصوری