چاروں طرف خلا میں ہے گہرا غبار سا
پھر بھی کہیں پہ ہے یوں ہی کچھ آشکار سا
کیا پھوٹتا ہے دل کی زمیں سے برنگ غم
کیا تیرتا ہے آنکھ میں نقش بہار سا
بکھرے ہیں میرے گرد نشان قدم مرے
کھینچا ہے میں نے اپنے لیے بھی حصار سا
فرصت جو ہو تو کھل کے برس میری خاک پر
بن جاؤں میں بھی ایک شجر سایہ دار سا
تنہا درخت میں بھی ہوں اس کے کنار میں
وہ بھی مرے قریب ہے اک جوئبار سا
عشرتؔ اداس طاق پہ یہ زرد رو چراغ
تنہائیوں میں میری ہے اک غم گسار سا
غزل
چاروں طرف خلا میں ہے گہرا غبار سا
عشرت ظفر