EN हिंदी
چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا | شیح شیری
chaaron taraf hai KHun ka dariya chaDha hua

غزل

چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا

مراتب اختر

;

چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا
کشمیر سر زمین مقدس روڈیشیا

چائے کی پیالیوں سے اٹھے گی نئی مہک
بے برگ ٹہنیوں پہ نیا رنگ آئے گا

جینے کی اک امنگ جو کل تھی سو اب بھی ہے
مرنے کا وقت آج بھی ہے کل بھی آئے گا

پتو مجھے لپیٹ لو اپنی رداؤں میں
میں وہ درخت ہوں جسے کچھ بھی نہیں ملا

شیشوں کی طرح ٹوٹ گئیں سب حقیقتیں
پتھر پگھل کے بہنے لگا انجماد کا