چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا
کشمیر سر زمین مقدس روڈیشیا
چائے کی پیالیوں سے اٹھے گی نئی مہک
بے برگ ٹہنیوں پہ نیا رنگ آئے گا
جینے کی اک امنگ جو کل تھی سو اب بھی ہے
مرنے کا وقت آج بھی ہے کل بھی آئے گا
پتو مجھے لپیٹ لو اپنی رداؤں میں
میں وہ درخت ہوں جسے کچھ بھی نہیں ملا
شیشوں کی طرح ٹوٹ گئیں سب حقیقتیں
پتھر پگھل کے بہنے لگا انجماد کا

غزل
چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا
مراتب اختر