چاروں جانب پاگل خانے لگتے ہیں
موسم ایسے ہوش اڑانے لگتے ہیں
ملبہ گرنے لگتا ہے سب کمرے کا
جب تیری تصویر جلانے لگتے ہیں
گھبرا کے اس دور کے وحشی انساں سے
دیواروں کو راز بتانے لگتے ہیں
آنکھ اٹھا کر جب بھی دیکھوں پیڑوں کو
مجھ کو میرے دوست پرانے لگتے ہیں
ذہن میں ماضی جب بھی گھومنے لگتا ہے
آنکھ میں کتنے آنسو آنے لگتے ہیں
دل کے ہاتھوں ہو کے ہم مجبور سدا
ارمانوں کی لاش اٹھانے لگتے ہیں
پتھر جیسی دنیا ہے خود غرضی ہے
اس کو کیوں کر درد سنانے لگتے ہیں
ساتھ مرے وہ مل کر چاند ستارے بھی
ہجر میں تیرے نیر بہانے لگتے ہیں
یار نبیلؔ انہیں میں جتنا بھولتا ہوں
مجھ کو یاد وہ اتنا آنے لگتے ہیں
غزل
چاروں جانب پاگل خانے لگتے ہیں
نبیل احمد نبیل