چار سو پھیلا ہوا کار جہاں رہنے دیا
رک گئے ہم اور ہر شے کو رواں رہنے دیا
اپنے گنبد میں کہاں سے آئے گی تازہ ہوا
اک دریچہ بھی کھلا ہم نے کہاں رہنے دیا
بال و پر قائم تھے ثابت ہمت پرواز تھی
کچھ زمیں راس آ گئی بس آسماں رہنے دیا
روز روشن آج سورج نے کیا گویا کمال
برف ساماں قطرہ قطرہ آسماں رہنے دیا
ہم نے اپنے واسطے بس اک جزیرہ چن لیا
اور بحر بیکراں کو بیکراں رہنے دیا
زندگانی ہو گئی گوشہ نشینی میں تمام
مل تو سکتا تھا مگر سارا جہاں رہنے دیا
اپنی قسمت کے لیے وہ اک ستارہ تھا بہت
دسترس تو تھی مگر سب آسماں رہنے دیا
کچھ مزاج اپنا ہی تھا بیتابؔ ان سب سے جدا
بس اکیلے چل دیے ہم کارواں رہنے دیا

غزل
چار سو پھیلا ہوا کار جہاں رہنے دیا
پرتپال سنگھ بیتاب