EN हिंदी
چار سو حسرتوں کی پہنائی | شیح شیری
chaar su hasraton ki pahnai

غزل

چار سو حسرتوں کی پہنائی

صفدر خورشید

;

چار سو حسرتوں کی پہنائی
زندگی کس طرف چلی آئی

آ غم زندگی کہاں ہے تو
آرزو لے رہی ہے انگڑائی

پھر وہی تیرہ بختیاں اپنی
پھر شب غم ہے اور تنہائی

غور کیجے تو یاد آئے گا
تھی کبھی آپ سے شناسائی

جائیے آپ کوئی بات نہیں
آنکھ تھی بے خودی میں بھر آئی

ابتلاؤں میں کیا گھرے صفدرؔ
زندگی کی روش ہی گہنائی