چار سو حسرتوں کی پہنائی
زندگی کس طرف چلی آئی
آ غم زندگی کہاں ہے تو
آرزو لے رہی ہے انگڑائی
پھر وہی تیرہ بختیاں اپنی
پھر شب غم ہے اور تنہائی
غور کیجے تو یاد آئے گا
تھی کبھی آپ سے شناسائی
جائیے آپ کوئی بات نہیں
آنکھ تھی بے خودی میں بھر آئی
ابتلاؤں میں کیا گھرے صفدرؔ
زندگی کی روش ہی گہنائی

غزل
چار سو حسرتوں کی پہنائی
صفدر خورشید