چار دن کو ہے یہاں شرط اقامت کیا کیا
فرصت زیست میں شامل ہے مصیبت کیا کیا
سرپھرے لوگ ہیں ہم اپنے جنوں کی رو میں
سوچ لیتے ہیں دل زار کی قیمت کیا کیا
وہ تو کہئے کہ گزر کر خس و خاشاک ہوئے
ورنہ سنگین تھی حالات کی صورت کیا کیا
آج مشکل ہے بہت وعدۂ فردا پہ یقیں
اور کل دوش پہ آئے گی ندامت کیا کیا
تم تو کیا ہو سر دیوار زمانہ خورشیدؔ
رائیگاں ہو کے مٹا نقش فضیلت کیا کیا
غزل
چار دن کو ہے یہاں شرط اقامت کیا کیا
خورشید رضوی