چاندنی رات میں ہر درد سنور جاتا ہے
جانے کیا کیا سر احساس بکھر جاتا ہے
دیکھتے ہم بھی ہیں کچھ خواب مگر ہائے رے دل
ہر نئے خواب کی تعبیر سے ڈر جاتا ہے
موت کا وقت معین ہے تو پھر بات ہے کیا
کون ہے مجھ میں جو ہر سانس پہ مر جاتا ہے
دل میں گڑ جاتی ہے جب ساعت ماضی کی صلیب
وقت رک جاتا ہے انسان گزر جاتا ہے
غزل
چاندنی رات میں ہر درد سنور جاتا ہے
عبد اللہ جاوید