چاندنی رات ہے اداسی ہے
کوئی چاندی ہو میل دیتی ہے
اس کے ڈر ہی سے میں مہذب ہوں
میرے اندر جو ایک وحشی ہے
شام کو روز اس سے ملتا ہوں
رات تنہا اداس کٹتی ہے
لوگ ہنس بول کر چلے بھی گئے
میز پر چائے اب بھی رکھی ہے
زندگی یوں بھی زندگی ٹھہری
کٹتے کٹتے بھی دیر لگتی ہے
ظالمو مجھ کو دیکھ لینے دو
ٹھہر جاؤ یہ اس کی بستی ہے
آؤ ان سے بھی مل ہی لیں عابدؔ
ایک دنیا تو ہم نے دیکھی ہے
غزل
چاندنی رات ہے اداسی ہے
عابد صدیق