چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے
تجھ سے مل مل کے بچھڑنے کا گماں باقی ہے
اب تو بس نام ہے یا سنگ نشاں باقی ہے
کیسی بستی ہے مکیں ہیں نہ مکاں باقی ہے
آتش عشق بجھے ایک زمانہ گزرا
راکھ کے ڈھیر تلے اب بھی دھواں باقی ہے
کتنی صدیوں سے تو سرگرم عمل ہے دنیا
اس کے با وصف مگر کار جہاں باقی ہے
ہر طرف عام ہے انساں کی تباہی کا چلن
کیا کہیں دہر میں اب جائے اماں باقی ہے
غزل
چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے
نور منیری