EN हिंदी
چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے | شیح شیری
chandni-raat hai taron ka saman baqi hai

غزل

چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے

نور منیری

;

چاندنی رات ہے تاروں کا سماں باقی ہے
تجھ سے مل مل کے بچھڑنے کا گماں باقی ہے

اب تو بس نام ہے یا سنگ نشاں باقی ہے
کیسی بستی ہے مکیں ہیں نہ مکاں باقی ہے

آتش عشق بجھے ایک زمانہ گزرا
راکھ کے ڈھیر تلے اب بھی دھواں باقی ہے

کتنی صدیوں سے تو سرگرم عمل ہے دنیا
اس کے با وصف مگر کار جہاں باقی ہے

ہر طرف عام ہے انساں کی تباہی کا چلن
کیا کہیں دہر میں اب جائے اماں باقی ہے