چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا
ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا
پاس خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں
تم نے ہم پر ترک الفت کا گماں کیسے کیا
ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا
جسم نے جو فیصلہ جیسے دیا ویسے کیا
اس لیے اب ڈوبنے کے خوف سے ہیں بے نیاز
ہم نے آغاز سفر دریاؤں کی تہ سے کیا
روشنی اپنی لٹائی ہم نے سورج کی طرح
اندھی راتوں میں اجالا مشعل لے سے کیا
جب شعور آیا تو فارغؔ وسعت فن کے لیے
استفادہ ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے کیا
غزل
چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا
فارغ بخاری