چاندنی میں رخ زیبا نہیں دیکھا جاتا
ماہ و خورشید کو یکجا نہیں دیکھا جاتا
یوں تو ان آنکھوں سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا
ہاں مگر اپنا ہی جلوہ نہیں دیکھا جاتا
دیدہ و دل کی تباہی مجھے منظور مگر
ان کا اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
ضبط غم ہاں وہی اشکوں کا تلاطم اک بار
اب تو سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا
زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
مجھ سے اب خون تمنا نہیں دیکھا جاتا
اب تو جھوٹی بھی تسلی بسر و چشم قبول
دل کا رہ رہ کے تڑپنا نہیں دیکھا جاتا
غزل
چاندنی میں رخ زیبا نہیں دیکھا جاتا
شکیل بدایونی