چاندی جیسی جھلمل مچھلی پانی پگھلے نیلم سا
شاخیں جس پر جھکی ہوئی ہیں دریا بہتے سرگم سا
سورج روشن رستہ دے گا کالے گہرے جنگل میں
خوف اندھیری راتوں کا اب نقش ہوا ہے مدھم سا
درد نہ اٹھا کوئی دل میں لہو نہ ٹپکا آنکھوں سے
کہنے والا بجھا بجھا تھا قصہ بھی تھا مبہم سا
ہنستی گاتی سب تصویریں ساکت اور مبہوت ہوئیں
لگتا ہے اب شہر ہی سارا ایک پرانے البم سا
سرد اکیلا بستر فکریؔ نیند پہاڑوں پار کھڑی
گرم ہوا کا جھونکا ڈھونڈوں جی سے گیلے موسم سا
غزل
چاندی جیسی جھلمل مچھلی پانی پگھلے نیلم سا
پرکاش فکری