چاند تو کھل اٹھا ستاروں میں
ہم سلگتے رہے شراروں میں
دل وحشت زدہ کا حال نہ پوچھ
پھول مرجھا گئے بہاروں میں
آنسوؤں کے چراغ روشن ہیں
دیکھ پھر تیری رہ گزاروں میں
کائنات اور بھی نکھر جائے
رنگ بھر دو اگر نظاروں میں
پھول کھلتے ہیں ہر برس ان پر
دفن ہے کون ان مزاروں میں
میرے سارے خلوص کی دولت
بانٹ دو جا کے غم کے ماروں میں
میں تو راہی ہوں تیری منزل کا
اور تو گم ہے چاند تاروں میں
غزل
چاند تو کھل اٹھا ستاروں میں
سوہن راہی