چاند تاروں نے بھی جب رخت سفر کھولا ہے
ہم نے ہر صبح اک امید پہ در کھولا ہے
میں بھٹکتا رہا سڑکوں پہ تری بستی میں
کب کسی نے میری خاطر کوئی گھر کھولا ہے
ہو گئی اور بھی رنگیں تری یادوں کی بہار
کھلتے پھولوں نے مرا زخم جگر کھولا ہے
ان کی پلکوں سے گرے ٹوٹ کے کچھ تاج محل
نیند سے چونک کے جب دیدۂ تر کھولا ہے
یار میرا تو مقدر ہے وہ چادر جس نے
پاؤں کھولے ہیں کبھی اور کبھی سر کھولا ہے
رات بھاری کٹی شاید گئے دن لوٹ آئے
شمسؔ نے پرچم امید سحر کھولا ہے
غزل
چاند تاروں نے بھی جب رخت سفر کھولا ہے
شمس فرخ آبادی