EN हिंदी
چاند سے اپنی یاری تھی | شیح شیری
chand se apni yari thi

غزل

چاند سے اپنی یاری تھی

عابد مناوری

;

چاند سے اپنی یاری تھی
ظلمت بھی اجیالی تھی

چیخ تھی دل کے گنبد میں
ہونٹوں پر خاموشی تھی

ایک انوکھا انوبھو تھا
گھڑی ملن کی نیاری تھی

ٹوٹی کشتی پتھر ریت
سامنے سوکھی ندی تھی

دن میں تارے دیکھے تھے
انہونی بھی ہونی تھی

ساحل پر تھی آگ ہی آگ
دریا میں طغیانی تھی

حد نظر تک صحرا تھا
سر پر دھوپ بلا کی تھی

لفظ تھے سب پایاب مگر
بات نہایت گہری تھی

عابدؔ نا ممکن تھی جیت
وقت کی چال ہی ایسی تھی