چاند نکلے نہ کہیں یار پرانے نکلے
کوئی کمبخت مرا دل تو جلانے نکلے
غم نازک کو تبسم نے کیا پردہ نشیں
اشک دشمن کی طرح راز بتانے نکلے
میں تو بس سرد ہوا کھانے کو چھت پر آیا
وہ بھی سوکھے ہوئے کپڑوں کو اٹھانے نکلے
اس کا غم تھا کہ مرے دل پہ سلیماں کی مہر
اشک نکلے کہ یہ موتی کے خزانے نکلے
مجھ پہ صحرا میں بھی اک سنگ کسی نے پھینکا
میرے آگے تو یہ مجذوب سیانے نکلے
دور حاضر کے سخن ساز ہیں کس عجلت میں
صبح دیوان کہا شام چھپانے نکلے
پھر سے بیتاب ہے اس چاند کا پارہ پارہ
ہائے وہ چاند تو انگلی کو نچانے نکلے
مشک نیپال نے عالم سے مشائخ کھینچے
کھودی مٹی تو کئی دفن خزانے نکلے
تیری گلیوں کا پتا مشک سے معلوم کیا
پھر اسی اور کئی بگڑی بنانے نکلے
غزل
چاند نکلے نہ کہیں یار پرانے نکلے
سرور نیپالی