چاند نکلا ہے سر قریۂ ظلمت دیکھو
ہو گئی کیسی سیہ خانوں کی رنگت دیکھو
سامنے جو ہے اسے آنکھ کا دھوکا سمجھو
ان دیاروں کو سدا خواب کی صورت دیکھو
سیر ہے جیسے کوئی، ایسے جہاں سے گزرو
دور تک پھیلا ہے اک عرصۂ فرقت دیکھو
زر کی پرچھائیں جو پڑتی ہے چمک اٹھتا ہے
آدم خاک کی بے ہوشی میں حالت دیکھو
خوف دیتا ہے یہاں ابر میں تنہا ہونا
شہر در بند میں دیواروں کی کثرت دیکھو
سایہ ہے ان پہ بہت بھولی ہوئی یادوں کا
شام آئی ہے پری زادوں میں وحشت دیکھو
داغ ہے اس کے نہ ہونے سے دلوں میں اب تک
اڑ گیا مثل صبا گل کی حقیقت دیکھو
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو
غزل
چاند نکلا ہے سر قریۂ ظلمت دیکھو
منیر نیازی