چاند میں ڈھلنے ستاروں میں نکلنے کے لیے
میں تو سورج ہوں بجھوں گا بھی تو جلنے کے لیے
منزلو تم ہی کچھ آگے کی طرف بڑھ جاؤ
راستہ کم ہے مرے پاؤں کو چلنے کے لیے
زندگی اپنے سواروں کو گراتی جب ہے
ایک موقع بھی نہیں دیتی سنبھلنے کے لیے
میں وہ موسم جو ابھی ٹھیک سے چھایا بھی نہیں
سازشیں ہونے لگیں مجھ کو بدلنے کے لیے
وہ تری یاد کے شعلے ہوں کہ احساس مرے
کچھ نہ کچھ آگ ضروری ہے پگھلنے کے لیے
یہ بہانہ ترے دیدار کی خواہش کا ہے
ہم جو آتے ہیں ادھر روز ٹہلنے کے لیے
آنکھ بے چین تری ایک جھلک کی خاطر
دل ہوا جاتا ہے بیتاب مچلنے کے لیے
غزل
چاند میں ڈھلنے ستاروں میں نکلنے کے لیے
شکیل اعظمی