چاند کی بے بسی کو سمجھوں گی
روشنی کی کمی کو سمجھوں گی
ایک پتھر سے دوستی کر کے
آپ کی بے رخی کو سمجھوں گی
میں چراغوں کو طاق پر رکھ کر
حاصل زندگی کو سمجھوں گی
اس بدن کا طلسم ٹوٹے تو
پھول کی تازگی کو سمجھوں گی
لوگ کہتے ہیں جب مجھے بے حس
میں بھلا کیوں کسی کو سمجھوں گی
فون پر بات ہوگی فرصت سے
اور اک اجنبی کو سمجھوں گی
مجھ سے امید مت لگاؤ تم
میں نہیں جو سبھی کو سمجھوں گی
جا کے دریا کنارے بیٹھوں گی
شور میں خامشی کو سمجھوں گی
میں سہولت پسند ہوں زہراؔ
آپسی دشمنی کو سمجھوں گی
غزل
چاند کی بے بسی کو سمجھوں گی
زہرا قرار