EN हिंदी
چاند کی بے بسی کو سمجھوں گی | شیح شیری
chand ki bebasi ko samjhungi

غزل

چاند کی بے بسی کو سمجھوں گی

زہرا قرار

;

چاند کی بے بسی کو سمجھوں گی
روشنی کی کمی کو سمجھوں گی

ایک پتھر سے دوستی کر کے
آپ کی بے رخی کو سمجھوں گی

میں چراغوں کو طاق پر رکھ کر
حاصل زندگی کو سمجھوں گی

اس بدن کا طلسم ٹوٹے تو
پھول کی تازگی کو سمجھوں گی

لوگ کہتے ہیں جب مجھے بے حس
میں بھلا کیوں کسی کو سمجھوں گی

فون پر بات ہوگی فرصت سے
اور اک اجنبی کو سمجھوں گی

مجھ سے امید مت لگاؤ تم
میں نہیں جو سبھی کو سمجھوں گی

جا کے دریا کنارے بیٹھوں گی
شور میں خامشی کو سمجھوں گی

میں سہولت پسند ہوں زہراؔ
آپسی دشمنی کو سمجھوں گی