چاند کی اول کرن منظر بہ منظر آئے گی
شام ڈھل جانے دو شب زینہ اتر کر آئے گی
میرے بستر تک ابھی آئی ہے وہ خوشبوئے خواب
رفتہ رفتہ بازوؤں میں بھی بدن بھر آئے گی
جانے وہ بولے گا کیا کیا اور بری ہو جائے گا
کچھ سنوں گا میں تو سب تہمت مرے سر آئے گی
وہ کھڑی ہے اک روایت کی طرح دہلیز پر
سیر کا بھی شوق ہے لیکن نہ باہر آئے گی
یوں کہ تجھ سے دور بھی ہوتے چلے جائیں گے ہم
جانتے بھی ہیں صدا تیری برابر آئے گی
کیا کھڑا ندی کنارے دیکھتا ہے وسعتیں
کیا سمجھتا ہے کوئی موج سمندر آئے گی
کیا عجب ہوتے ہیں باطن راستوں کے سلسلے
کوئی بھی زنداں ہو بانیؔ روشنی در آئے گی
غزل
چاند کی اول کرن منظر بہ منظر آئے گی
راجیندر منچندا بانی