چاند کے ساتھ جل اٹھی میں بھی
دیر تک بام پر رہی میں بھی
کیا ہوا ڈھل رہی ہے شام اگر
ہے وہی تو ابھی وہی میں بھی
تو جو بھولا تو میں بھی بھول گئی
ورنہ بھولی نہ تھی کبھی میں بھی
لب دیوار و در تو پتھر تھے
تیرے آگے خموش تھی میں بھی
کس کو معلوم تیری راتوں میں
اک ستارہ بنی رہی میں بھی
بے ضرورت تری پناہ میں ہوں
اتنی بے خانماں نہ تھی میں بھی
جذبۂ عشق کی فراخ دلی
تو جھکا تھا تو جھک گئی میں بھی
چھاؤں میں ہوں ابھی دعاؤں کی
ہوں کسی گود کی پلی میں بھی
غزل
چاند کے ساتھ جل اٹھی میں بھی
شاہدہ حسن