چاند کیسے کسی تارے میں سما جائے گا
پھر بھی امید کو ضد ہے کہ وہ آ جائے گا
کیا خبر تھی مری راتوں کی وہ نیندیں لے کر
جگنوؤں کو مری پلکوں پہ سجا جائے گا
غم کے صحرا میں بکھر جاؤں میں تنکوں کی طرح
ایک جھونکا بھی یہ طوفان اٹھا جائے گا
اپنا ہر لفظ اتارے گا مرے ذہن میں پھر
دل میں جو بات چھپی ہے وہ بچا جائے گا
میناؔ چھاؤں کی محبت میں نہ سرشار رہو
چڑھتا سورج ابھی سائے کو گھٹا جائے گا
غزل
چاند کیسے کسی تارے میں سما جائے گا
مینا نقوی