EN हिंदी
چاند ہیں نہ تارے ہیں آسماں کے آنگن میں | شیح شیری
chand hain na tare hain aasman ke aangan mein

غزل

چاند ہیں نہ تارے ہیں آسماں کے آنگن میں

اشتیاق طالب

;

چاند ہیں نہ تارے ہیں آسماں کے آنگن میں
رقص کرتے ہیں شعلے اب تو شب کے دامن میں

وحشتیں ہیں رقصندہ ہر گلی ہر آنگن میں
تیرے عہد زریں میں اشک خوں ہیں دامن میں

کون دھوکا دیتا ہے کون ٹوٹا کرتا ہے
اب تمیز مشکل ہے راہ بر میں رہزن میں

ایسے اب کے یاد آئی اس مہ دو ہفتہ کی
چاندنی اتر آئی جیسے گھر کے آنگن میں

مکڑیوں کے جالوں میں جیسے کیڑے ہوں بے بس
الجھے ہیں کچھ ایسے ہی اہل فکر الجھن میں

یوں نشاں ہیں راہوں میں کارواں کے قدموں کے
کھل رہے ہوں ہر جانب پھول جس طرح بن میں

پھول کھلتے تھے طالبؔ خوشبو رقص کرتی تھی
آج شعلے رقصاں ہیں شاخ شام گلشن میں