EN हिंदी
چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا | شیح شیری
chaal ek aisi chali har shaKHs sidha ho gaya

غزل

چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا

کمار پاشی

;

چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا
بات بس اتنی کہ میں تھوڑا سا ترچھا ہو گیا

لوگ بولے اب نیا ہو جا پرانا پن اتار
میں بھی کیا کرتا سر بازار ننگا ہو گیا

اس جنم میں پھر مجھے ویسی ہی گمنامی ملی
اتفاق ایسا کہ پھر اس گھر میں پیدا ہو گیا

ٹوٹ کر تارے گرے کل شب مری دہلیز پر
اس کی بھی آنکھیں گئیں اور میں بھی اندھا ہو گیا

چھ دنوں تک شہر میں گھوما وہ بچوں کی طرح
ساتویں دن جب وہ گھر پہنچا تو بوڑھا ہو گیا

دو دنوں میں ہم ذرا کچھ اور لمبے ہو گئے
قد ہمارے دوستوں کا اور چھوٹا ہو گیا

چل دیئے دنیا سے ہم پاشیؔ سبھی کچھ تیاگ کر
اور ہمارے ساتھ ہی اک دور پورا ہو گیا