چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا
بات بس اتنی کہ میں تھوڑا سا ترچھا ہو گیا
لوگ بولے اب نیا ہو جا پرانا پن اتار
میں بھی کیا کرتا سر بازار ننگا ہو گیا
اس جنم میں پھر مجھے ویسی ہی گمنامی ملی
اتفاق ایسا کہ پھر اس گھر میں پیدا ہو گیا
ٹوٹ کر تارے گرے کل شب مری دہلیز پر
اس کی بھی آنکھیں گئیں اور میں بھی اندھا ہو گیا
چھ دنوں تک شہر میں گھوما وہ بچوں کی طرح
ساتویں دن جب وہ گھر پہنچا تو بوڑھا ہو گیا
دو دنوں میں ہم ذرا کچھ اور لمبے ہو گئے
قد ہمارے دوستوں کا اور چھوٹا ہو گیا
چل دیئے دنیا سے ہم پاشیؔ سبھی کچھ تیاگ کر
اور ہمارے ساتھ ہی اک دور پورا ہو گیا

غزل
چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا
کمار پاشی