چال اپنی ادا سے چلتے ہیں
ہم کہاں کج روی سے ٹلتے ہیں
زندگی بے رخی سے پیش نہ آ
تجھ پہ احساں مرے نکلتے ہیں
کارداں ہیں بلا کے سب چہرے
آئنہ کو ہنر سے چھلتے ہیں
کوئی آتش فشاں ہے سینے میں
اشک مثل شرر نکلتے ہیں
اس کے طرز سخن کے مارے لوگ
اپنا لہجہ کہاں بدلتے ہیں
آج سو لوں کہ ہے سہولت شب
دن کہاں روز روز ڈھلتے ہیں
آ گئی لو خزاں کی پربت تک
وادیوں میں چنار جلتے ہیں
پنجۂ ذہن کے تلے پیہم
طائر دل کئی مچلتے ہیں
خواب کا جن نہ آئے گا باہر
بے سبب آپ آنکھ ملتے ہیں
تجھ سے کردار ہوں بکلؔ جن میں
ایسے قصے کہاں سنبھلتے ہیں

غزل
چال اپنی ادا سے چلتے ہیں
بکل دیو