چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
حشر کا جس پہ دم نکلتا ہے
اشک خوں کیوں نہ آنکھ سے ٹپکیں
دل کا ارماں یوں ہی نکلتا ہے
ساقیا ایک جام کے چلتے
کتنے پیاسوں کا کام چلتا ہے
میں کسی سرزمیں کا قصد کروں
آسماں ساتھ ساتھ چلتا ہے
ہائے گردش وہ چشم ساقی کی
میں یہ سمجھا کہ جام چلتا ہے
سرو ہے نام نخل الفت کا
پھولتا ہے کبھی نہ پھلتا ہے
کیا زمانہ بھی ہے اسیر ترا
کہ اشارے پہ تیرے چلتا ہے
تیر دل کا نہ کھینچ رہنے دے
لطف صحبت ہے جی بہلتا ہے
شعر رنگیں نہ سمجھو ان کو جلیلؔ
طوطی فکر لعل اگلتا ہے
غزل
چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
جلیلؔ مانک پوری