چاک پر مٹی کو مر جانا ہے
خواب تعمیر بکھر جانا ہے
ہم کو اس دشت میں جانا ہوگا
وحشتوں کا یہی ہرجانا ہے
صاحبو ہم ہیں اسی صف کے لوگ
جن سے صحرا کو سنور جانا ہے
سامنے حشر کی حد ہے صاحب
اب ہمیں لوٹ کے گھر جانا ہے
قبر گاہ ہیں صداؤں کی یہاں
بس یہیں ہم کو بھی مر جانا ہے
تم کو کھونے کا تمہیں پانے کا
ہم نے ہر قسم کا ڈر جانا ہے
کوئی بھی راہ نہیں ہے اس تک
ہم کو معلوم ہے پر جانا ہے
لو نظر آنے لگا اس کا حشر
قافلہ والو ٹھہر جانا ہے
کس لیے تیرنا اشکوں میں سدا
اب تہ دیدۂ تر جانا ہے
وہ دنیشؔ اس کی گلی ہے آگے
دیکھ لو تم کو کدھر جانا ہے
غزل
چاک پر مٹی کو مر جانا ہے
دنیش نائیڈو