چاہوں تو ابھی ہجر کے حالات بتا دوں
پھر کیا ہے ترے وصل کی اوقات بتا دوں
سمجھے ہے تو بس میرے ظواہر کے اشارے
میں اپنے پہ آؤں تو تری ذات بتا دوں
وہ راز جو کھولے گا ظواہر کی حقیقت
تو بولے بتا دوں تو میں وہ بات بتا دوں
پڑھ سکتا ہوں میں جلد کتاب رخ روشن
چاہوں تو مضامین مقالات بتا دوں
سجدوں کو مرے نشر و اشاعت کا نہیں شوق
کیوں غیر کو تخصیص عبادات بتا دوں
دشمن کو تو رکھوں گا میں مستور زمانہ
ممکن ہے کبھی اپنے مہمات بتا دوں
میں بھی ترے حصے کا سفر کرتا رہا ہوں
اب اور تجھے کون سی سوغات بتا دوں
تجدید تفکر کا تجھے وہم ہوا ہے
میں تیرے خیالوں میں تضادات بتا دوں
پھر جان گیا تیرے لطیفانہ سخن کو
پھر کیا ہے ترا راز مدارات بتا دوں
مخمور ہے مدہوش ہے دنیا مرے آگے
کچھ اور بھی ہیں اس کے خرافات بتا دوں
تقدیر ہی کچھ اپنی مٹر گشت کئے ہے
تمجیدؔ یہ ممکن ہے محالات بتا دوں
غزل
چاہوں تو ابھی ہجر کے حالات بتا دوں
سید تمجید حیدر تمجید