چاہتا یہ ہوں کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں
شمع کی طرح جلوں اور دھواں ہو جاؤں
پہلے دہلیز پہ روشن کروں آنکھوں کے چراغ
اور پھر خود کسی پردے میں نہاں ہو جاؤں
توڑ کر پھینک دوں یہ فرقہ پرستی کے محل
اور پیشانی پہ سجدے کا نشاں ہو جاؤں
دل سے پھر درد مہکنے کی صدائیں اٹھیں
کاش ایسا ہو میں تیری رگ جاں ہو جاؤں
بس ترے ذکر میں کٹ جائیں مرے روز و شب
نور کی شاخ پہ چڑیوں کی زباں ہو جاؤں
خاک جس کوچے کی ملتے ہیں فرشتے آ کر
میں اسی خاک کے ذروں میں نہاں ہو جاؤں
میری آوارہ مزاجی کو سکوں مل جائے
درد بن کر ترے سینے میں رواں ہو جاؤں

غزل
چاہتا یہ ہوں کہ بے نام و نشاں ہو جاؤں
عزم شاکری