چاہے سو ہمیں کر تو گنہ گار ہیں تیرے
تقدیر تھی اپنی کہ گرفتار ہیں تیرے
مرتے ہیں کبھی آ کے ہماری بھی خبر لے
آہ اے بت بے درد یہ بیمار ہیں تیرے
نقد دل و دیں مفت میں دے بیٹھیں گے آخر
ہم عاشق مفلس کہ خریدار ہیں تیرے
خواہش ہے نہ بوسے کی نہ آغوش سے مطلب
دیدار کے یاں صرف طلب گار ہیں تیرے
ہے روئے زمیں عرصۂ محشر انہیں ہر روز
جو دل شدۂ قامت و رفتار ہیں تیرے
ہم وصل میں اور ہجر میں جلتے رہے ان سے
کیا داغ جگر یہ گل رخسار ہیں تیرے
سوگند ہے حسرتؔ مجھے اعجاز سخن کی
یہ سحر ہیں جادو ہیں نہ اشعار ہیں تیرے
غزل
چاہے سو ہمیں کر تو گنہ گار ہیں تیرے
حسرتؔ عظیم آبادی