چاہتوں کا جو شجر ہے دوستو
آج بے برگ و ثمر ہے دوستو
اڑ رہی ہے جو ستاروں سے پرے
اپنی ہی گرد سفر ہے دوستو
دامن زریں امیر شہر کا
خون میں اپنے ہی تر ہے دوستو
اشک غم پی پی کے اپنے شہر میں
مسکرانا بھی ہنر ہے دوستو
منزل خورشید سے آگے چلو
موسم پرواز و پر ہے دوستو
کار ہائے زندگی ہیں معتبر
زندگی نا معتبر ہے دوستو

غزل
چاہتوں کا جو شجر ہے دوستو
رفعت الحسینی