چاہتیں موسمی پرندے ہیں رت بدلتے ہی لوٹ جاتے ہیں
گھونسلے بن کے ٹوٹ جاتے ہیں داغ شاخوں پہ چہچہاتے ہیں
آنے والے بیاض میں اپنی جانے والوں کے نام لکھتے ہیں
سب ہی اوروں کے خالی کمروں کو اپنی اپنی طرح سجاتے ہیں
موت اک واہمہ ہے نظروں کا ساتھ چھٹتا کہاں ہے اپنوں کا
جو زمیں پر نظر نہیں آتے چاند تاروں میں جگمگاتے ہیں
یہ مصور عجیب ہوتے ہیں آپ اپنے حبیب ہوتے ہیں
دوسروں کی شباہتیں لے کر اپنی تصویر ہی بناتے ہیں
یوں ہی چلتا ہے کاروبار جہاں ہے ضروری ہر ایک چیز یہاں
جن درختوں میں پھل نہیں آتے وہ جلانے کے کام آتے ہیں
غزل
چاہتیں موسمی پرندے ہیں رت بدلتے ہی لوٹ جاتے ہیں
ندا فاضلی