چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی
کس خوش سلیقگی سے جگر چاک کر گئی
رکھی تھی جو سنبھال کے تو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا کس کے گھر گئی
جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خفیف میں یکسر بکھر گئی
بھٹکے ہوئے تھے ایسے کہ گرد سفر کو ہم
مڑ مڑ کے دیکھتے رہے منزل گزر گئی
اک عمر دھوپ میں جو پلی تھی وہ کش مکش
سایہ گھنے درخت کا دیکھا تو ڈر گئی
حیرت ہے کچھ پتا نہ چلا کیسے زندگی
جیسی گزرنی تھی مری ویسی گزر گئی
اوچھوں کی طبع آزرؔ خوش خو سے پوچھئے
جوں ہی ہوائے وقت لگی بس اپھر گئی
غزل
چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی
راشد آذر