EN हिंदी
چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی | شیح شیری
chahat tumhaari sine pe kya gul katar gai

غزل

چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی

راشد آذر

;

چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی
کس خوش سلیقگی سے جگر چاک کر گئی

رکھی تھی جو سنبھال کے تو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا کس کے گھر گئی

جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خفیف میں یکسر بکھر گئی

بھٹکے ہوئے تھے ایسے کہ گرد سفر کو ہم
مڑ مڑ کے دیکھتے رہے منزل گزر گئی

اک عمر دھوپ میں جو پلی تھی وہ کش مکش
سایہ گھنے درخت کا دیکھا تو ڈر گئی

حیرت ہے کچھ پتا نہ چلا کیسے زندگی
جیسی گزرنی تھی مری ویسی گزر گئی

اوچھوں کی طبع آزرؔ خوش خو سے پوچھئے
جوں ہی ہوائے وقت لگی بس اپھر گئی