چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا
اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا
کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے
قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا
کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے
سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا
ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا
اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا
سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا
اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے
دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا
غزل
چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا
اطہر شکیل