چاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیں
کیوں دل سے جھگڑتے ہو گنہ گار تو ہم ہیں
رو آئینے کو دیتے ہو برعکس ہمارے
آئینہ رکھو طالب دیدار تو ہم ہیں
گلشن میں عجب جاتے ہو کر حسن کی تزئین
اس جنس دل آرا کے خریدار تو ہم ہیں
کیا کبک کو دکھلاتے ہو انداز خرام آہ
حسرت زدۂ شوخئ رفتار تو ہم ہیں
کی چشم سوئے نرگس بیمار تو پھر کیا
اس عین عنایت کے سزا وار تو ہم ہیں
دل دے کے دل آزار کو کیا شکوۂ بیداد
گر سوچیے اپنے لیے آزار تو ہم ہیں
جس دن سے پھنسے دیکھی نہ پھر شکل رہائی
کیا کہئے نظیرؔ ایسے گرفتار تو ہم ہیں
غزل
چاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیں
نظیر اکبرآبادی