چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح
وہ ملے مجھ کو اجنبی کی طرح
مجھ کو الہام ہو گیا شاید
بات کرتا ہوں اک نبی کی طرح
جانے کتنے سوال ابھرے ہیں
جب بھی سوچا ہے فلسفی کی طرح
سارا منظر نکھرتا جاتا ہے
کون ہنستا ہے آپ ہی کی طرح
خوب چرچا ہے گو سویروں کا
رات پھر بھی ہے رات ہی کی طرح
وقت کی بات ہے کہ اب تم بھی
ہم سے ملتے ہو اجنبی کی طرح
یہ درندوں کا شہر ہے اس میں
کون ملتا ہے آدمی کی طرح

غزل
چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح
بلبیر راٹھی