EN हिंदी
چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح | شیح شیری
chaha jinko bhi zindagi ki tarah

غزل

چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح

بلبیر راٹھی

;

چاہا جن کو بھی زندگی کی طرح
وہ ملے مجھ کو اجنبی کی طرح

مجھ کو الہام ہو گیا شاید
بات کرتا ہوں اک نبی کی طرح

جانے کتنے سوال ابھرے ہیں
جب بھی سوچا ہے فلسفی کی طرح

سارا منظر نکھرتا جاتا ہے
کون ہنستا ہے آپ ہی کی طرح

خوب چرچا ہے گو سویروں کا
رات پھر بھی ہے رات ہی کی طرح

وقت کی بات ہے کہ اب تم بھی
ہم سے ملتے ہو اجنبی کی طرح

یہ درندوں کا شہر ہے اس میں
کون ملتا ہے آدمی کی طرح