EN हिंदी
چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا | شیح شیری
chah mein uski dil ne hamare nam ko chhoDa nam kiya

غزل

چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا

نظیر اکبرآبادی

;

چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
شغل میں اس کے شوق بڑھا کر کام کو چھوڑا کام کیا

زلف دوپٹہ دھانی میں کر کے پنہاں مرا دل باندھ لیا
صید نہ کھاوے کیوں کر جل جب سبزے میں پنہاں دام کیا

رم پر اپنے آہوئے دل کو غرہ نہایت تھا لیکن
چنچل آہوئے چشم نے اس کو ایک نگہ میں رام کیا

سمجھے تھے یوں ہم دل کو لگا کر پاویں گے یاں آرام بہت
حیف اسی فہمید نے ہم کو کیا کیا بے آرام کیا

ہم نے کہا جب ناز بتاں کے تم تو بہت کام آئے نظیرؔ
سن کے کہا کیا آئے جی ہاں کچھ بت کے موافق کام کیا