بزدلی تو وہ کر نہیں سکتا
جو ہے سچا وہ ڈر نہیں سکتا
جسم دنیا بھلے ہی دفنا دے
پیار زندہ ہے مر نہیں سکتا
بھوک میں صرف چاہیے روٹی
پیٹ باتوں سے بھر نہیں سکتا
جھوٹ چاہے بلند ہو کتنا
سچ کے آگے ٹھہر نہیں سکتا
آپ دیکھیں تو اس کا حسن بڑھے
آئنہ خود سنور نہیں سکتا
جو بھی ساحل کا ہے تماشائی
پار دریا وہ کر نہیں سکتا
غزل
بزدلی تو وہ کر نہیں سکتا
محمد علی ساحل