بوند بن بن کے بکھرتا جائے
عکس آئینے کو بھرتا جائے
بن کے کل کل جو گزرتا جائے
اپنے وعدے سے مکرتا جائے
ایک ہی لے میں بہے جاتا ہے
اور لگتا ہے ٹھہرتا جائے
شہر ساگر کا بھی ہم زاد کہاں
موج در موج بپھرتا جائے
عکس معکوس ہوا ہے جب سے
اپنی نظروں سے اترتا جائے
ایک ندی ہے کہ رکتی ہی نہیں
ایک طوفان اترتا جائے
ایک کونپل میں سمٹنے کے لئے
پیڑ کا پیڑ بکھرتا جائے
غزل
بوند بن بن کے بکھرتا جائے
شین کاف نظام