EN हिंदी
بوئے پیراہن صدا آئے | شیح شیری
bu-e-pairahan-e-sada aae

غزل

بوئے پیراہن صدا آئے

شاہد ماہلی

;

بوئے پیراہن صدا آئے
کھڑکیاں کھول دو ہوا آئے

منزلیں اپنے نام ہوں منسوب
اپنی جانب بھی راستہ آئے

جلتے بجھتے چراغ سا دل میں
آرزوؤں کا سلسلہ آئے

خامشی لفظ لفظ پھیلی تھی
بے زبانی میں کچھ سنا آئے

ڈوب کر ان اداس آنکھوں میں
اک جہان طرب لٹا آئے

دل میں رہ رہ کے اک خلش اٹھے
بے سبب اک خیال سا آئے