بوئے پیراہن صدا آئے
کھڑکیاں کھول دو ہوا آئے
منزلیں اپنے نام ہوں منسوب
اپنی جانب بھی راستہ آئے
جلتے بجھتے چراغ سا دل میں
آرزوؤں کا سلسلہ آئے
خامشی لفظ لفظ پھیلی تھی
بے زبانی میں کچھ سنا آئے
ڈوب کر ان اداس آنکھوں میں
اک جہان طرب لٹا آئے
دل میں رہ رہ کے اک خلش اٹھے
بے سبب اک خیال سا آئے
غزل
بوئے پیراہن صدا آئے
شاہد ماہلی