بوئے خوش کی طرح ہر سمت بکھر جاؤں گا
آہنی ہاتھوں سے اب کوئی دبا دے مجھ کو
میں تو مدت سے چلا آتا ہوں پیچھے پیچھے
گردش وقت کبھی رک کے صدا دے مجھ کو
دن تو سارا ہی کٹا مثل چراغ کشتہ
گرمیٔ جسم سر شام جلا دے مجھ کو
تم مجھے دیکھ کے جو بات کبھی کہہ نہ سکے
کیا یہ ممکن نہیں آئینہ بتا دے مجھ کو
جن کو پانے سے حقیقت بھی فسانہ بن جائے
اب صباؔ ایسے سرابوں کا پتا دے مجھ کو
غزل
بوئے خوش کی طرح ہر سمت بکھر جاؤں گا (ردیف .. و)
صبا جائسی