بوئے گل رقص میں ہے باد خزاں رقص میں ہے
یہ زمیں رقص میں ہے سارا جہاں رقص میں ہے
روح سرشار ہے اور چشم تخیل بیدار
بعد مدت کے وہی شعلۂ جاں رقص میں ہے
جل اٹھے ذہن کے ایوان میں لفظوں کے چراغ
آج پھر گرمئ انداز بیاں رقص میں ہے
پھر کسی یاد کی کشتی میں رواں ہیں لمحات
جوئے دل رقص میں ہے وادئ جاں رقص میں ہے
کتنا جاں بخش ہے یہ عشق کی وادی کا سفر
نغمہ زن طائفۂ لذت جاں رقص میں ہے
بند آنکھوں میں لرزتا ہے کوئی منظر نور
جیسے تابندہ ستاروں کا جہاں رقص میں ہے
محضر شوق میں پیکار گماں سے آگے
ذہن ہے نغمہ سرا جذب نہاں رقص میں ہے
خواب تو خواب ہیں پل بھر میں بکھر جاتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ بس اک کاہش جاں رقص میں ہے
بیچ ساگر میں تو تھے حوصلے موجوں سے بلند
اور ساحل پہ اک احساس زیاں رقص میں ہے
غزل
بوئے گل رقص میں ہے باد خزاں رقص میں ہے
زاہدہ زیدی