بتوں کا ذکر کر واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہے
شرار سنگ موسیٰ کے لیے برق تجلیٰ ہے
یہ ہندستان ہے یاں پر بتوں کا روز میلہ ہے
خدا جانے وہ بت اے مہرؔ دیوی ہے کہ درگا ہے
تصور اس صنم کا ہے ہمیں کعبہ سے کیا مطلب
چراغ اپنا ہے داغ دل ہے جو مندر میں جلتا ہے
جدا ہے نعمت دنیا سے لذت بوسۂ لب کی
وہ جوگی ہو گیا جس نے یہ موہن بھوگ چکھا ہے
بتا جائز ہے کس مذہب میں خون بے گناہ ظالم
تو ہندو ہے مسلماں ہے یہودی ہے کہ ترسا ہے
کیا کافر نے کافر مہرؔ سے مرد مسلماں کو
جنیوو رشتۂ تسبیح داغ سجدہ ٹیکہ ہے

غزل
بتوں کا ذکر کر واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہے
حاتم علی مہر