EN हिंदी
بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا | شیح شیری
buto KHuda pe na rakkho moamla dil ka

غزل

بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا

امداد علی بحر

;

بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا
برا بھلا یہیں ہو جائے فیصلہ دل کا

بتوں سے ہے متعلق معاملہ دل کا
خدا ہے حشر میں بھی ہو جو فیصلہ دل کا

چلو بلا سے اگر ہے یہ آستین کا سانپ
بغل میں پال کے میں کیا کروں گلہ دل کا

خیال زلف میں سینے پہ سانپ لوٹتے ہیں
دہان مار کا چھالا ہے آبلہ دل کا

سنوں تمہاری کہ اپنی کہوں حقیقت حال
تمہیں ہے میری شکایت مجھے گلہ دل کا

خدا یہ نالہ و فریاد ساز وار کرے
کہ دل لگی ہے ہماری یہ مشغلہ دل کا

بھٹک کے کوئی گیا دیر کو کوئی کعبے
عجیب بھول بھلیاں ہے مرحلہ دل کا

میں عشق قد میں الف کھینچ کر ہوا ہوں فقیر
میں زلف یار سے رکھتا ہوں سلسلہ دل کا

کسی کے زلف نے برہم کیے ہیں ہوش و حواس
لٹا ہے شام کے رستے میں قافلہ دل کا

خزاں رسیدوں کو باغ و بہار سے کیا کام
نہ اب وہ جوش طبیعت نہ ولولہ دل کا

زمانہ اور ہے اوباشوں کا وقت نہیں
نہ وہ مزاج ہمارا نہ حوصلہ دل کا

یہ کس صنم کی محبت میں مرتبہ پایا
ہوا جو عرش خدا سے مقابلہ دل کا

کمال یار کے ہاتھوں جلا ہوں میں اے بحرؔ
ہتھیلی کا ہے پھپھولا یہ آبلہ دل کا