EN हिंदी
بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا | شیح شیری
but-kada nazdik kaba dur tha

غزل

بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا

حفیظ جونپوری

;

بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا
میں ادھر ہی رہ گیا مجبور تھا

شام ہی سے ہم کہیں جاتے تھے روز
مدتوں اپنا یہی دستور تھا

وہ کیا جس میں خوشی تھی آپ کی
وہ ہوا جو آپ کو منظور تھا

کچھ ادب سے رہ گئے نالے ادھر
کیا بتائیں عرش کتنی دور تھا

جس گھڑی تھا اس کے جلوے کا ظہور
عرش کا ہم سنگ کوہ طور تھا

اک حسیں کا آ گیا جو تذکرہ
دیر تک محفل میں ذکر حور تھا

وصل کی شب تھی شب معراج کیا
دور تک پھیلا ہوا اک نور تھا

ہر کس و ناکس سے کیا ملتی نگاہ
اپنی آنکھوں میں بت مغرور تھا

عمر بھر فکر سخن میں تھا حفیظؔ
شاعری کا دل میں اک ناسور تھا