بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی
آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا
صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا
دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں
ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی
ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا
غزل
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
بیدم شاہ وارثی