بت بنے راہ تکو گے کب تک
آس کی آنچ سہو گے کب تک
سر اٹھا کر کبھی دیکھو تو سہی
دل کی دنیا میں بسو گے کب تک
جس نے اپنی بھی خبر لی نہ کبھی
تم اسے یاد کرو گے کب تک
ہم سفر ہو تو کوئی اپنا سا
چاند کے ساتھ چلو گے کب تک
کوئی پتا ہے نہ بوٹا ہے نہ گل
دشت کو باغ کہوگے کب تک
ہر طرف آگ برستی ہے یہاں
کس توقع پہ رہوگے کب تک
آندھیاں تیز ہوئی جاتی ہیں
گھر بلاتا ہے چلو گے کب تک
کوئی جا کر نہیں آتا شہرتؔ
صورت شمع گھلو گے کب تک
غزل
بت بنے راہ تکو گے کب تک
شہرت بخاری