بس کہ اب زلف کا سودا بھی مرے سر میں نہیں
کیا کروں مانگ کے اس کو جو مقدر میں نہیں
وہ بھی منظر تھا کہ خود مجھ میں تھا اک اک منظر
یہ بھی منظر ہے کہ اب میں کسی منظر میں نہیں
اب جو ہم خود کو سمیٹیں تو سمیٹیں کتنا
سر بھی ہے اپنا کھلا پاؤں بھی چادر میں نہیں
اے مرے شوق شہادت ترا حافظ ہے خدا
سخت جاں میں بھی ہوں اور دھار بھی خنجر میں نہیں
ملنے کی آس میں کانٹوں پہ بھی چل کر خوش تھا
اور اب چین مجھے پھولوں کے بستر میں نہیں
اب مری پیاس کے بجھنے کا نہیں کوئی سوال
اب مرے نام کی صہبا کسی ساغر میں نہیں
بات یہ ہے کہ نظر تاب نظر کھو بیٹھی
یہ نہیں ہے کہ کشش اب کسی پیکر میں نہیں
میں تو سب کا ہوں رفاقت پہ مری سب کو ہے ناز
کوئی میرا ہی مگر میرے بھرے گھر میں نہیں
پر تپاک آج بھی ملتے ہیں نہ جانے کتنے
لیکن اخلاص وقارؔ ان میں سے اکثر میں نہیں

غزل
بس کہ اب زلف کا سودا بھی مرے سر میں نہیں
وقار مانوی