EN हिंदी
برائی کیا ہے تم الزام دو برائی کا | شیح شیری
burai kya hai tum ilzam do burai ka

غزل

برائی کیا ہے تم الزام دو برائی کا

جگر بریلوی

;

برائی کیا ہے تم الزام دو برائی کا
بشر ہوں میں مجھے دعویٰ نہیں خدائی کا

کیا ہے سجدہ کبھی یا نہیں کیا خوش ہوں
جبیں پہ داغ نہیں سجدۂ ریائی کا

کسی کے عشق میں دیوانے ہم نہ گر ہوتے
تو راز کھل نہیں سکتا تھا پارسائی کا

ذرا تم اب کہیں چھپ جاؤ ہر تڑپ لو ہیں
کہ یاد آیا ہے مجھ کو مزا جدائی کا

نہیں ہے میری کسی اور کی ہے یہ بھی حدیث
قصوروار اگر ہوں میں خود ستائی کا

جسے یقیں ہے کہ اس کے نصیب میں تم ہو
گناہ کیوں وہ کرے قسمت آزمائی کا

رواں دواں ہوں مجھے اپنی دھن میں ہوش کہاں
بہانہ لے کے جو بیٹھوں شکستہ پائی کا

اسی کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں
نصیب عذر جسے ہے برہنہ پائی کا

کسے ہے علم نصیبوں میں مرے آپ نہیں
خیال چھوڑ دوں کیوں قسمت آزمائی کا

جو عشق عام ہے میرے لیے ہے ننگ حیات
مدار اور ہے میری غزل سرائی کا

بڑا مزہ تھا تڑپنے میں تلملانے میں
نہ بھولتا ہے نہ بھولے گا دن جدائی کا

چمن ہو اور شب مہتاب و حلقۂ احباب
مزہ جبھی ہے جگرؔ کچھ غزل سرائی کا